
تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا کلی قاعدہ ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى [49-الحجرات:13]
”اے لوگو ! بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔“
? جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔
اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے، البتہ یہ کہہ جا سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔
➋ مردار کا حرام ہونا ایک قاعدہ کلیہ ہے۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [5-المائدة:3]
? جبکہ اس سے جراد (ٹڈی نام کا ایک پرندہ) اور حوت (مچھلی) کا گوشت مستثنیٰ ہے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 384/1، و سندهٔ صحيح]
? ان دو قسم کے مرداروں کے حلال ہونے سے ہر مردار کے حلال ہونے کا استدلال جائز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”مردار حلال ہے، لیکن صرف مچھلی اور ٹڈی کا“۔ مردار کے حرام ہونے والا قانون اپنی جگہ مستقل اور کلی ہی ہے۔
➌ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مردوں پر ریشم پہننا حرام کر دیا گیا ہے۔ فرمان نبوی ہے :
الحرير والذهب حرام على ذكور أمتي، حل لإناثهم
”ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، جبکہ عورتوں کے لیے حلال ہیں۔“ [ شرح مشكل الآثار للطحاوي : 308/12، ح : 4821، و سندهٔ حسن]
جبکہ تین، چار انگلیوں کے برابر استعمال کر لینا جائز ہے۔ [ صحيح مسلم : 2069]
? شریعت کا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ مردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے، لیکن ایک خاص مقدار جائز کر دی گئی ہے۔ کوئی اس رخصت کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ”مردوں کے لئے ریشم پہننا جائز ہے لیکن ایک خاص مقدار میں۔“
یہ سب مثالیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کلی قاعدے میں بسا اوقات شریعت کچھ استثناءات رکھ دیتی ہے، لیکن اس سے قانون شریعت کی کلی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔ بالکل یہی حال مسئلہ سماع موتی کا ہے۔ مردے نہیں سنتے، البتہ قرآن و سنت کے بیان کرده خاص اوقات و حالات میں ان کا کوئی خاص بات سن لینا ثابت ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ مردے سنتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا سے کہ ”مردے سنتے ہیں، لیکن ان حالات و واقعات میں جن کی صراحت نصوص شرعیہ نے کر دی ہے۔“
لہٰذا مطلق طور پر مردوں کے سننے کا عقیدہ رکھنا قرآن و سنت سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت نے مردوں کے سننے کے مطلق نفی کی ہے۔ یہی کلی قانون ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
عدم سماع موتی کے دلائل
دليل نمبر ①
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ
[6-الأنعام:36]
”جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے روز) زندہ کرے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے“
◈ سنسی مفسر ابوجعفر، ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224-310 ھ) فرماتے ہیں:
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ، يقول : الكفار يبعثهم الله مع الموتى، فجعلهم تعالى ذكره في عداد المؤتى الذين لا يسمعون صوتا، ولا يعقلون دعاء، ولا يفقهون قولا.
﴿والمؤتى يبعثهم الله﴾ ”اور مردوں کو تو اللہ تعالی (روز قیامت) زندہ کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا، یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں (زندہ ہوتے ہوئے بھی) ان مردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں، نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتا ہے۔“ [ جامع البيان عن تأويل آي القرآن المعروف بتفسير الطبري : 855/4]
دلیل نمبر ②
﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ﴾ [27-النمل:80]
”(اے نبی !) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔“
◈:
واستدل المنكرون (لسماع الموتى)، ومنهم عائشة وابن عباس، ومنهم الإمام (أبو حنيفة)، بقوله تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ، فإنه لما شبه الكفار بالأموات في عدم سماع،
علم أن الأموات لا يسمعون والا لم یصح التشبیهٔ
”جو لوگ مردوں کے سننے کے انکاری ہیں، ان میں سیدہ عائشہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام ابوحنیفہ شامل ہیں۔ ان کا استدلال اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ہے: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ ”(اے نبی !) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔۔۔“ [الكوكب الدري، ص: 319، ط الحجرية، 197/2، ط الجديدة]
? اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گویا یہ کفار مرد ے ہیں کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اس طرح یہ بھی حق بات نہیں سنتے۔
دلیل نمبر ③ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
◈ مسعود بن عمر تفتازانی ماتریدی (م:792 ھ) لکھتے ہیں:
واما قوله تعالى : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ، فتمثل بحال الكفرة بحال المؤتى، ولا نزاع فى أن الميت لا يسمع.
”اپنے اس فرمان گرامی ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے“ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔“ [شرح المقاصد فى علم الكلام : 116/5]
◈ شارح ہدایہ، علامہ ابن ہمام حنفی (م:861ھ) ان دونوں آیات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فإنهما يفيدان تحقيق عدم سماعهم، فإنه تعالى شبه الكفار بالمؤتى لإفادة تعذر سماعهم، وهو فرع عدم سماع الموتى.
”ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتیٰ کی فرع ہے۔“ [فتح القدير:104/2]
فائدہ: بعض لوگ فوت شدگان کو فریاد رسی کے لئے پکارتے ہیں اور غیب سے ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ مردے تو قریب سے بھی سن نہیں سکتے، ہزاروں میل دور سے کیسے سنیں گے؟ قرآن مجید اس کا رد یوں فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ٭ إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (35-فاطر:14، 13)
”اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے۔ قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براءت کا اعلان کر دیں گے۔ تمہیں (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“
نیز فرمان باری تعالی ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ [46-الأحقاف:5]
”اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی داد رسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔“
? معلوم ہوا کہ مردے سن نہیں سکتے۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے۔ اس کلی قائدہ کا انکاری اہل حق نہیں، بلکہ گمراہ شخص ہے۔
استثناءت جو شرعی نصوص سے ثابت ہیں
اس کلی قاعدے سے شریعت نے خود ہی چند استثناءت رکھ دی ہیں۔ ان میں کچھ استثناءت یہ ہیں:
استثناء نمبر ①
مردے کا جوتوں کی آواز سننا :
① سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
العبد إذا وضع في قبره , وتولي , وذهب اصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم اتاه ملكان فاقعداه , فيقولان له
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اقربا اسے چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، حتی کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں۔۔۔؟“ [ صحيح البخاري : 78/1، ح: 1338، صحيح مسلم :379/2، ح : 7216]
❀ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع خفق نعالهم إذا انصرفوا
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ لوگوں کی واپسی کے وقت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔۔۔“ [ صحيح مسلم : ح : 7217]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الميت اذا وضع في قبره انه لسمع خفق نعالهم حين يولون عنه
”میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو لوگوں کے واپسی کے وقت وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہی ہوتی ہے۔“
[ مسند الإمام أحمد : 348/2، شرح معاني الأثار للطحاوي : 510/1، المعجم الأوسط للطبراني :2651، المستدرك على الصحيحين للحاكم :380/1-381، و سندهٔ حسن]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ (3113) نے اس حدیث کو’’صحیح“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [ مجمع الزوائد: 51/3-52]
? یہ ایک استثناء ہے۔ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ مردوں کے نہ سننے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو حين يولون عنهٔ (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہو تے ہیں) اور إِذا انصرفوا ، (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔
◈ علامہ عینی حنفی(م:855 ھ) لکھتے ہیں:
وفيه دليل على أنّ الميت تعود إليه روحه لأجل السؤال، وإنه ليسمع صوت نعال الاحياء، وهو فى السؤال
”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کی روح اس سے (منکر و نکیر کے) سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور میت سوال کے وقت زندہ لوگوں کے جوتوں کی آواز ستنی ہے۔“ [ شرح أبى داؤد :188/6]
? پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی ليسمع وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں۔
? اس تحقیق کی تائید، اس فرمان نبوی سے بھی ہوتی ہے جو :
◈ امام طحاوی حنفی نے نقل کیا ہے:
والذي نفسي بيده ! إنه ليسمع خفق نعالهم، حين تولون عنه مدبرين
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کی جوتوں کی آواز سنتی ہے۔“ [ شرح معاني الاثار للطحاوي :510/1، وسنده حسن]
◈ عالم عرب کے مشہور اہل حدیث عالم دین، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332- 1420ھ )اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فليس فيه إلا السماع فى حالة إعادة الروح إليه ليجيب على سؤال الملكين، كما هو واضح من سياق الحديث.
”اس حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ جب فرشتوں کے سوالات کے جواب کے لئے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس حالت میں وہ (جوتوں کی) آواز سنتی ہے۔ حدیث کے سیاق سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔“ [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء فى الأمّة : 1147]
◈ مشہور عرب، اہل حدیث عالم، محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (م:1421 ھ) فرماتے ہیں:
فهو وارد فى وقت خاص، وهو انصراف المشيعين بعد الدّفن.
”مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے۔“ [ القول المفيد على كتاب التوحيد : 289/1]
استثناء نمبر ②
جنگ بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننا:
● بدر میں قتل ہونے والے چوبیس مشرکوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ تین دن کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام پکار پکار کر فرمایا:
يا فلان بن فلان، ويا فلان بن فلان ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله، فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ’’اے فلاں کے بیٹے فلاں اور اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تمہیں اب اچھا لگتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لیتے؟ ہم نے اپنے ساتھ کیے گئے اپنے رب کے وعدے کو سچا دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچا ہوتا دیکھ لیا ؟‘‘
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: يا رسول الله ما تكلم من اجساد لا ارواح لها ”اللہ کے رسول! آپ ان جسموں سے کیا باتیں کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں؟“
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفس محمد بيده، ما انتم باسمع لما اقول منهم ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں، اس کو تم ان کفار سے زیادہ نہیں سن رہے۔“ [صحيح البخاري :566/2، ح : 3976، صحيح مسلم: 387/2، ح: 2874]
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی واقعہ یوں بیان کر تے ہیں:
اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على اهل القليب، فقال: وجدتم ما وعد ربكم حقا، فقيل له: تدعو امواتا، فقال: ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں والے کفار کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ آپ سے عرض کی گئی : کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہاری طرح سن رہے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔“ [ صحيح البخاري : 183/1، ح : 1370]
? اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ صحیح بخاری [ 567/2، :3981-3980] میں ہے:
انهم الان يسمعون ما اقول
”وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔‘‘
? اس سے معلوم ہوا کہ مرد ے نہیں سنتے۔ صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی لیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا : الآن یعنی اس وقت وہ میری بات سن رہے ہیں۔ اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال (أبو عبدالله محمد بن على – 453-536هـ -) المازري : قال بعض الناس : الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكرهٔ المازري، وادعى أن هذا خاض فى هؤلاء.
”علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی) مازری (453۔ 536 ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔“ [ شرح صحيح مسلم : 387/2 ]
◈ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
ونحوه قوله صلي الله عليه وسلم لعمر حينما ساله عن منادته لاهل قليب بدر ما انتم باسمع لما اقول منهم هو خاص ايضا باهل القليب
”نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة : 286/3، ح : 1148]
فائدہ : مشہور تابعی امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (61۔ 118 ھ ) فرماتے ہیں :
أحياهم الله حتي أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما .
”اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔“ [ مسند الإمام أحمد : 459/19، ح : 12417، صحيح البخاري : 3976 ]
◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبد اللہ، ابن بطال (م : 449 ھ) فرماتے ہیں :
وعلى تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة.
”امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔“ [ شرح صحيح البخاري : 358/3 ]
? معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلا ہے۔ یہ کہنا کہ ”نفی سماع، پھر استثناء، کیا فرق نکلے گا، نتیجہ تو بہرکیف سماع موتیٰ ہی نکلتا ہے۔۔۔“ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔
◈ شار ح بخاری، علامہ، ابومحمد، عبدالواحد، ابن تین مغربی (م : 611 ھ) فرماتے ہیں :
ان الموتي لا يسمعون بلا شك . ”یقینا مردے نہیں سنتے۔ ” [ فتح الباري لابن حجر : 235/3]
◈ شارح بخاری، مہلب بن احمد بن اسید تمیمی (م : 435 ھ) فرماتے ہیں :
لا يسمعون، كما قال تعالى : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ [27-النمل:80] ، ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
”مردے نہیں سنتے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾(اے نبی !) ”یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ نیز فرمایا : ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ ”(اے نبی !) آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے۔“ [ شرح صحيح البخاري لابن بطال : 320/3]
? ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لئے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔ دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔ باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین !
قائلین سماع موتی کے شبہات اور ان کا ازالہ
جو لوگ سماع موتیٰ کے قائل ہیں، وہ دلائل کی دنیا میں نادار اور فقیر ہیں۔ ان کے پاس دلائل نہیں، شبہات ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مردوں کے سننے کے قائل ہیں۔ آئیے قرآن و سنت اور آثار سلف کی روشنی میں ان شبہات کا ازالہ کرتے ہیں :
شبہ نمبر ①
تفسیر ابن کثیر کی ایک الحاقی عبارت
وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔“ [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]
? تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
Comments
Post a Comment